۰۳
اِس خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں ایک گھر میں رہتا ہوں۔ ایک دن میں اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہوتا ہوں اور اللہﷻ آسمان سے مجھے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں ’’قاسم! یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ میں سارا دن کوئی خاص کام نہیں کرتا اور بیکارکی زندگی گزار رہا ہوں‘‘۔ تھوڑی دیر بعدحضرت محمدﷺ میرے گھر آتے ہیں اور مجھے اپنے پاس بٹھا کر کہتے ہیں ’’یہ دیکھو قاسم! میں نے تمہارا داخلہ ایک اسکول میں کروا دیا ہے (مجھے اسکول کا نام بھول چکا ہے)، کل سے تم اسکول جاؤ گے‘‘۔ آپﷺ میرے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’اسکول جا کر پڑھنا لکھنا اور پِھر میرا نام پوری دنیا میں روشن کرنا، جس طرح پہلے کبھی دنیا میں میرا نام روشن تھا‘‘۔ میں بہت خوش ہوتا ہوں کہ اللہﷻ نے میری سن لی۔ حضرت محمدﷺ مجھے اسکول میں داخلے کا خط دیتے ہیں اور اسکول کا پتہ بتاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’کل صبح ۸ بجے سے پہلے اسکول پہنچ جانا‘‘۔ میں کہتا ہوں ’’ٹھیک ہے، میں اِنشاءاللہ وقت پہ چلا جاؤں گا‘‘۔ آپﷺ مجھے کوئی کتابیں وغیرہ نہیں دیتے۔ میرے پاس کچھ پُرانی کتابیں ہوتی ہیں، وہ اکٹھی کرتا ہوں اور صبح کے لیے کپڑے استری کر کے رکھ دیتا ہوں۔ میری کتابیں پُرانی ہوتی ہیں اور کپڑے بھی پرانے ہوتے ہیں۔ میں دل میں سوچتا ہوں کہ یہ کوئی معمولی سا اسکول ہو گا، وہاں کس نے دیکھنا ہے؟
میں صبح اٹھتا ہوں اور تیار ہو کر گھر سے نکل جاتا ہوں۔ گھر سے کچھ دور ایک چوک آتا ہے، مجھے یاد نہیں رہتا کہ یہاں سے کس طرف مڑنا ہے۔ اچانک وہاں سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ گزرتے ہیں، میں انھیں روک کراسکول کا پتہ پوچھتا ہوں۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اسکول کا نام سن کر حیران ہوتے ہیں، وہ میرا حلیہ دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں ’’تم اِس اسکول کا پتہ کس لیے پوچھ رہے ہو؟‘‘ میں کہتا ہوں ’’میرا اِس اسکول میں داخلہ ہوا ہے اور آج میرا اسکول میں پہلا دن ہے‘‘۔ وہ میرا داخلے کا خط دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ماشاءاللہ‘‘ وہ مجھے اسکول کا پتہ بتاتے ہیں اور میں اسکول کی طرف روانہ ہو جاتا ہوں۔
جب میں اسکول کے پاس پہنچتا ہوں تو اسکول کی عمارت دیکھ کرمیری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ میں کہتا ہوں ’’ اِس اسکول کی عمارت کتنی شاندار ہے ؟‘‘ پِھر مجھے کچھ طلباء نظر آتے ہیں جنہوں نے بڑےعالیشان قسِم کے کپڑے پہنے ہوتے ہیں اور اُنکے بیگ بھی بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوں ’’کہیں میں کسی دوسرے اسکول میں تو نہیں آ گیا؟‘‘ پِھر میں اسکول کا نام دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں ’’نہیں! اسکول تو یہی ہے، تو پِھر حضرت محمدﷺ نے مجھےکیوں نہیں بتایا کہ یہ اسکول بہت عالیشان ہے؟‘‘ میں یہ سب دیکھ کر گھبرا جاتا ہوں کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ میرے کپڑے تو معمولی سے ہیں اور کتابیں بھی میں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہیں اوروہ بھی پُرانی سی ہیں۔
اسکول کے باہر ایک کینٹین (canteen) ہوتی ہے، میں وہاں بیٹھ جاتا ہوں۔ ساتھ ہی کچھ طلباء بھی وہاں آ جاتے ہیں اور میرے ساتھ والی میزپہ بیٹھ جاتے ہیں۔ میں انھیں دیکھ کر اندر ہی اندر گُھٹ رہا ہوتا ہوں۔ اُن میں سے ایک مجھ سے میرا نام پوچھتا ہے، میں اُسے اپنا نام بتاتا ہوں۔ اُس کا دوسرا ساتھی مجھے اپنے پاس بلاتا ہے اور بیٹھنے کو کہتا ہے۔ میں دل میں کہتا ہوں ’’قاسم! تیار ہوجا، اب یہ تیرا مذاق اُڑائیں گے‘‘۔ میں اُن کے پاس بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ مجھ سے بڑے پیار سے بات کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں ’’کیا آپ یہاں نئے طالب علم ہیں؟‘‘ میں کہتا ہوں ’’جی، میرا آج یہاں پہلا دن ہے‘‘۔ پِھراُن میں سے ایک پوچھتا ہے ’’آپ کیا کھائیں گے؟‘‘ میں کہتا ہوں ’’کچھ نہیں، میں گھر سے کھا کر آیا ہوں‘‘۔ پِھر وہ اپنے لیے جوس اور سینڈوچ منگواتے ہیں اور میرے لیے بھی منگوا لیتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں ’’آپ پریشان نہ ہوں، ہمیں یہاں یہی سکھایا جاتا ہے کہ ہم سب بھائی ہیں اور ہمیں دوسروں کا بھی ویسے ہی خیال رکھنا چاہیئے جیسے ہم اپنا خیال رکھتے ہیں۔ آپ کو کوئی بھی مسئلہ ہو تو یہاں کسی کو بھی بتا دیں وہ آپ کی مدد کرے گا‘‘۔ میں دِل میں کہتا ہوں ’’سبحان اللہ! جس طرح اِس اسکول کی عمارت عالیشان ہے، بالکل ویسے ہی اِس اسکول کے طلباء بھی عالیشان ہیں‘‘۔ لیکن اندر ہی اندر میں احساسں کمتری کا شکار ہو جاتا ہوں اور بہت شرمندہ ہو رہا ہوتا ہوں۔
پِھر اسکول کی گھنٹی بجتی ہے اور سب طلباء اسکول کے مرکزی دروازے کی طرف چل پڑتے ہیں۔ وہ مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے کو کہتے ہیں، تو میں اُن سے کہتا ہوں ’’آپ چلیں، میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا‘‘۔ جب وہ چلے جاتے ہیں تو میں آہستہ آہستہ اسکول کے مرکزی دروازے کی طرف جاتا ہوں اور اپنے آپ سے کہتا ہوں ’’یہ میرے ساتھ کیا ہو گیا ہے؟ حضرت محمدﷺ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ یہ ایک بہت عالیشان اسکول ہے۔ اِس میں پڑھنے والے طلباء، اُن کا لباس اور دیگر اشیاء بھی بہت ہی عالیشان ہیں؟ اب میں کیا کروں؟ کلاس میں سب طلباء نے قیمتی کپڑے پہنے ہوں گے اور صرف ایک میں نے پھٹے پُرانے کپڑے پہنے ہوں گے اور میری کتابیں بھی پرانی اور بوسیدہ ہے اورمیں نے پلاسٹک کی ٹوٹی ہوئی چپل پہنی ہوئی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر میں اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور کہتا ہوں ’’اِس شرمندگی سے تو بہتر ہے کہ میں گھر واپس چلا جاؤں‘‘۔ عین اُس وقت مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے ہاتھ سے کتابیں غائب ہو گئی ہیں اور بیگ آ گیا ہے۔ میں اپنی آنکھیں کھولتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں۔ میرے کپڑے بھی بالکل باقی طلباء کی طرح بدل جاتے ہیں اور جوتے بھی بدل جاتے ہیں اور ہاتھ میں ویسا ہی عالیشان بستہ ہوتا ہے جیسا کہ دیگر طلباء کے پاس تھا۔ یہ دیکھ کر میں کہتا ہوں ’’یہ سب کیسے ہو گیا؟ جب میں نے آنکھیں بند کی تھیں توایسا کیا ہوا جو میرے کپڑے عالیشان کپڑوں میں بدل گئے؟‘‘
عین اُس وقت آسمان سے اللہﷻ کی آواز آتی ہے ’’قاسم! ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کے سر پہ محمدﷺ کی رحمت کا سایہ ہو اور اللہ اُسے اکیلا چھوڑ دے۔ اللہ بڑا مہربان ہے اور ہر چیز پہ قادر ہے‘‘۔ یہ سن کر میرے اندر ایک عجیب سی خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اور میں پاگلوں کی طرح اسکول کے مرکزی دروازے کی طرف شور مچاتے ہوئے بھاگتا ہوں کہ اللہ نے اپنی رحمت سے مجھے بھی بالکل ویسا ہی بنا دیا جیسا کہ اِس اسکول کے باقی طلباء ہیں۔
جب میں اسکول کے مرکزی دروازے پہ پہنچتا ہوں تو وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوتے ہیں۔ میں انھیں سلام کرتا ہوں، وہ میرے سلام کا جواب دیتے ہیں اور کہتے ہیں ’’میں تمہارا ہی انتظارکر رہا تھا‘‘۔ میں عمر رضی اللہ عنہ سے کہتا ہوں ’’مجھے بھی اِس اسکول میں داخلہ مل گیا ہے اور آج میرا پہلا دن ہے‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’سبحان اللہ! اِس اسکول میں صرف اُسی کو داخلہ ملتا ہے جسے اللہﷻ اپنی خاص رحمت سے اجازت بخشے۔ اب ہم اندرجائیں گے اور وہاں ہم سب اللہﷻ کی حمدوثناء کریں گے اور پِھر کلاس میں جائیں گے‘‘۔ تو میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہتا ہوں ’’میری پہلی کلاس آپ نے ہی لینی ہے‘‘۔ تو عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’انشاءاللہ‘‘ ۔ یہ خواب یہیں ختم ہو جاتا ہے ۔
Komentar