روشنی | محمد قاسم خواب


۲۱: بھوکے شیر اور اللہﷻ کی مدد
مارچ ۲۰۱۵ 
میں اِس خواب میں اپنے پرانے سے گھر میں ہوتا ہوں جوکہ ٹُوٹا پُھوٹا ہوتا ہے، اِس میں لائٹ بھی نہیں ہوتی اور گھر کی بُری حالت ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ شاید میری قسمت میں اِن اندھیروں میں رہنا ہی لکھا ہے۔ اچانک اللہﷻ اپنے عرش پہ آتا ہے اورفرماتا ہے ’’قاسم! کب تک اِن اندھیروں میں بیٹھا رہے گا؟ گھر سے باہر نکل اور میری رحمتوں اور برکتوں والی منزل کو تلاش کر، جہاں نہ اندھیرے ہیں اور نہ کوئی غم۔ یہ سن کر میں بہت خوش ہوتا ہوں کہ اللہﷻ کتنا اچھا ہے، وہ مجھے اِن اندھیروں سے نکالنے آیا ہے۔

میں خوشی خوشی گھر سے باہر نکلتا ہوں۔ ابھی تھوڑی ہی دور جاتا ہوں کہ میں کئی دنوں کے بھوکے آٹھ، دس شیردیکھتا ہوں جو سائز میں بھی کافی بڑے ہوتے ہیں۔ میں اُن کو دیکھ کر ڈر جاتا ہوں اور واپس گھر کی طرف بھاگتا ہوں اور جلدی سے دروازہ بند کر لیتا ہوں، اور کہتا ہوں ’’یا اللہ، باہر تو آٹھ ، دس بڑے بڑے بھوکے شیرہیں، وہ تو مجھے کچا کھا جائیں گے‘‘۔ تو اللہﷻ فرماتا ہے ’’تو میرا یقین کر، اِن میں سے کوئی بھی تجھ تک نہیں پہنچ سکے گا‘‘۔ میں کھڑکی سے شیروں کو دیکھنے کے لیے باہر جھانکتا ہوں، تو عین اُس وقت تین خوفناک قِسم کے کتے تیزی سے خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے چھلانگ لگا کرمیری طرف بڑھتے ہیں۔ میں پیچھے کی طرف بھاگتا ہوں اور گِرجاتا ہوں۔ کھڑکی پہ لوہے کا جنگلہ لگا ہوتا ہے، اور وہ کتے اِس جنگلے سے ٹکرا کر باہر ہی گر جاتے ہیں۔ میں اللہﷻ سے کہتا ہوں ’’یہ دیکھ، میرے اُوپر اِن کتوں نے حملہ کر دیا ہے اور توفرماتا ہے کہ مجھ تک کوئی بھوکا شیرنہیں پہنچ سکے گا؟‘‘ میں کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ جاتا ہوں۔ پِھر اللہﷻ اُن کتوں پر غضبناک ہو کربجلی گراتا ہے اور وہ کتے وہیں جل کر مر جاتے ہیں۔ اللہﷻ مجھ سے فرماتا ہے ’’قاسم! یا تو وہ کام کر جس کا میں نے تجھے حکم دیا ہے یا پِھر اِن اندھیروں میں ہمیشہ کے لیے پڑا رہ۔ میرا یقین کر، میں تیری حفاظت بھی کروں گا اور تجھے تیری منزل تک باحفاظت بھی پہنچاؤں گا۔ قاسم! میں اپنے کام پہ غالب ہوں‘‘۔یہ کہہ کر اللہﷻ وہاں سے چلا جاتا ہے۔

میں وہیں پڑا سوچتا رہتا ہوں کہ کیا کروں؟ پِھر میں کہتا ہوں ’’قاسم! موت تو مجھے یہاں بھی آ جانی ہے اور اگر باہر نِکلوں گا تو تب بھی آنی ہے۔ اِس لیے گھر میں مرنے سے بہتر ہے کہ میں باہر نکل کر مروں۔ اور جیسے اللہﷻ فرماتا ہے کہ میں تیری حفاظت بھی کروں گا اور تجھے تیری منزل تک بھی پہنچاؤں گا، تو مجھے اللہﷻ پہ بھروسہ کرنا چاہیئے، میرے پاس اِس کے علاوہ اور کوئی راستہ ہے بھی نہیں۔ میں اللہﷻ کا نام لیتا ہوں مگر ڈر اور خوف کی حالت میں گھر سے نکلتا ہوں اور دروازہ کھلا چھوڑ دیتا ہوں کہ اگر کوئی شیر میری طرف آیا تو میں واپس گھر بھاگ جاؤں گا۔ میں ڈرتے ڈرتے آگے بڑھتا ہوں مگر مجھے کوئی شیرنظر نہیں آتا۔ میں حیران ہوتا ہوں یہ سب شیر کہاں چلے گئے؟ پِھر تھوڑی دور جاتا ہوں تو مجھے ایک شیر کا کٹا ہوا بازو ملتا ہے۔ میں اُس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ اتنے خوفناک شیر کو کس نے اتنی بے دردی سے ماردیا؟ تھوڑا اور آگے جاتا ہوں تو کسی شیرکا سر اور کسی کا دھڑ نظر آتا ہے۔ میں یہ دیکھ کر کہتا ہوں یہ کام اللہﷻ کے سو

مجھے ایک اونچی عمارت نظر آتی ہے، میں اُس پہ چڑھ کر اللہﷻ کو ڈھونڈتا ہوں۔ اللہﷻ مجھے دور ایک نُور کی شکل میں کہیں جاتا ہوا نظر آتا ہے۔ میں بھاگتا ہوا اللہﷻ کے پیچھے جاتا ہوں۔ اور جب میں اُس جگہ پہنچتا ہوں اللہﷻ کا نُور وہاں سے کہیں اور چلا جاتا ہے۔ پِھر مجھے خیال آتا ہے کہ میں عمارت کے اوپر سے کیسے بھاگ کر آ گیا ہوں۔ میں کہتا ہوں ’’میں نیچے کیوں نہیں گرا اور کیسے میں اللہﷻ کی مدد سے ہوا میں بھاگتا ہوا یہاں تک پہنچ گیا ہوں؟ آخر اللہﷻ نے ہی مجھے تھاما ہے‘‘۔ اُس کے بعد مجھے بہت جوش چڑھ جاتا ہے اور میں اللہﷻ کو آواز دیتا ہوں ’’یا اللہ تو کہاں ہے؟‘‘ تو اللہﷻ دور ایک منزل کا نام لے کرفرماتا ہے ’’قاسم! میں یہاں ہوں، جلدی سے میرے پاس آ جا‘‘۔ میں بےچینی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھتا ہوں کہ کیسے اللہﷻ کے پاس پہنچوں؟ تو مجھے ایک کالے رنگ کی بڑی سی، قیمتی موٹرسائیکل نظر آتی ہے۔ میں اُس کو چلاتا ہوں مگر سڑک کچی ہوتی ہے اِس لیے میں موٹرسائیکل تیز نہیں چلا پاتا۔ میں کہتا ہوں کاش پکی سڑک ہوتی تو میں اِس کو تھوڑا تیز چلا لیتا۔ ابھی میں یہ کہتا ہی ہوں تو زمین کے اندر سے کالے رنگ کی پکی سڑک نکلتی ہے اور میں موٹر سائیکل پوری رفتار سے بھگاتا ہوا اُس منزل تک پہنچ جاتا ہوں۔

وہ ایک بہت عالیشان عمارت ہوتی ہے جیسے کوئی عالیشان قسم کا فارم ہاؤس ہو جہاں لوگ سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوتا ہوں اور اندر جاتا ہوں۔ اندر کا ماحول بہت پرسکون اور پرامن ہوتا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے یہاں صدیوں سےکوئی نہیں آیا، مگراُس کا رنگ روغن تھوڑا پھیکا ہوتا ہے۔ آگے دیکھتا ہوں تو وہاں کسی نے تازہ تازہ رنگ روغن کیا ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اللہﷻ اِس عمارت کو نیا بنا کر دوبارہ سے آباد کر رہا ہو۔ وہاں میں حلال جانور یعنی ہرن وغیرہ بھی دیکھتا ہوں۔ میں چلتے چلتے ایک بڑے سے ہال میں پہنچتا ہوں۔ وہاں اللہ کا نُور ہوتا ہے اور اللہﷻ فرماتا ہے ’’قاسم! کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ میں تجھے یہاں تک باحفاظت پہنچاؤں گا؟‘‘ تو میں اللہﷻ سے کہتا ہوں ’’تونے اپنی باتیں سچ کر دکھائیں، تونے مجھے راستہ دکھایا اور مجھے اِن اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آیا،تو سب سے بہتر راستہ دکھانے والا ہے۔ اب میں کل صبح نہا دھو کر اپنے سارے کام نمٹا کرتجھے بتا دوں گا‘‘۔ تو اللہﷻ میری بات سن کر بہت سنجیدہ لہجے میں فرماتا ہے ’’قاسم! اگر تو کل اپنے سارے کام کر لے گا، تو میں بھی شام کو قیامت قائم کر دوں گا‘‘۔

Komentar