عمارت میں لوگ | محمد قاسم خواب


19 فروری 2016 کو میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ہم ایک اونچی عمارت میں ہوتے ہیں۔ اس عمارت کے منتظم نے یہاں کا ایک ایسا نظام بنایا ہوتا ہے کہ کوئی بھی اس عمارت سے بھاگ نہیں سکتا۔ مجھے فکر ہوتی ہے کیونکہ میں اس عمارت سے بھاگنا چاہتا ہوں۔ مجھے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا تو اللہ تعالٰی میرے خواب میں مجھ سے فرماتے ہیں کہ تم راستہ تلاش کرو میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں فوراً باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے لگ جاتا ہوں۔ اس دوران مجھے کچھ لوگ ملتے ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالٰی نے مجھے بتایا ہے کہ اس نظام سے باہر نکلنے کا راستہ ہے! آؤ! ملکر تلاش کرتے ہیں! وہ لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟اس عمارت سے کوئی کبھی نہیں نکل سکتا اگر کوئی نکلا ہے تو ہمیں نہیں پتہ کیسے؟ جاؤ اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کرو! تم دوسروں کی طرح اس عمارت میں زندگی کیوں نہیں گذارتے؟میں اپنے دل میں سوچتا ہوں کہ کیا میں غلاموں کی طرح زندگی بسر کروں؟ میں انکی بات ماننے سے انکار کر دیتا ہوں اور اپنی تلاش جاری رکھتا ہوں۔میں کچھ با اثر افراد سے ملتا ہوں جنکے بہت سے ماننے والے ہوتے ہیں ۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟ وہ اپنے ماننے والوں کو کہتے ہیں کہ اسکو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ یہ آدمی پاگل ہے! اور ڈاکٹر انہیں بتاتے ہیں کہ اسکے دل میں خرابی ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ یہ سب دیکھ کر مجھے فکر ہونے لگتی ہے کیونکہ کوئی میری بات نہیں سن رہا ہوتاہے۔ اللہ تعالٰی نے بھی ابھی تک میری مدد نہیں کی ہوتی ہے۔ مایوسی کے عالم میں میں یہ کام چھوڑ دیتا ہوں۔ بہت سارے ہال نما کمروں سے گزر کر میں ایک جگہ پہنچتا ہوںجہاں مجھے سورج کی روشنی نظر آتی ہے۔مگر یہ روشنی محض اکّا دکّا لوگوں تک ہی پہنچ رہی ہوتی ہے۔ وہ مجھے دیکھ کر آپس میں کہتے ہیں: اسکا سویٹر کتنا خوبصورت ہے؟ میں اپنے سویٹر کی طرف دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں۔سوچتا ہوں کہ یہ سویٹر میں نے کب پہنا؟ وہ یقینًا بہت خوبصورت سویٹر ہوتا ہے جس میں حسین رنگ ہوتے ہیں۔ میں سمجھ نہیں پاتا اور سورج کی روشنی جس طرف سے آرہی ہوتی ہے اس طرف چلنا شروع کر دیتا ہوں۔ ایک شخص کہتا ہے کہ اگر یہ سچا ہے تو یہ پیسے اور کھانا لوگوں میں تقسیم کرے گا۔ میں اسکو نظر انداز کرکے روشنی کی جانب چلتا چلا جاتا ہوں یہ دیکھنے کہ سورج کی روشنی آ کہاں سے رہی ہے ۔ وہ دیوار میں موجود ایک چھوٹا سا سوراخ تھا جہاں سے سورج کی روشنی آرہی تھی۔ میں اسے دیکھ کر خوش ہوجاتا ہوں۔ مگر افسوس وہ سوراخ اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ میں اسکے ذریعہ باہر نکلتا۔ میں اس سوراخ کو ہاتھ لگاتا ہوں یہ دیکھنے کیلئے کہ کیا میں اس کو اتنا بڑا کرسکتا ہوں کہ باہر نکل جاؤں تو وہ سوراخ خود ہی تھوڑا سا بڑا ہو جاتا ہے۔ میں اپنے دونوں ہاتھوں اور سر کو سوراخ میں ڈالتا ہوں اور باہر کی جانب کودنے میں کامیاب ہوجاتا ہوں۔ میں بہت خوش ہوتا ہوں کہ اللہ کی مدد آگئی۔ میں آگے بڑھتا ہوں اور مجھے میرا گھر مل جاتا ہے۔ گھر کے اندر بہت سارے پرندے پنجروں میں بند ہوتے ہیں۔ وہ بھوکے ہوتے ہیں اور زور زور سے چہچہا رہے ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ میں انکو کیا کھانے کو دوں کیونکہ میرے پاس انکو کھلانے کیلئے کچھ نہیں ہوتا۔ میں فکر مند ہوجاتا ہوں اور اپنی مٹھی بند کرتا ہوں تو اپنے ہاتھ میں اناج کے دانے محسوس کرتا ہوں۔ میں اناج کو پرندوں کے برتنوں میں ڈالنا شروع کرتا ہوں یہاں تک کہ وہ بھر جاتے ہیں مگر میرے ہاتھ میں ابھی تک اناج موجود رہتاہے اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ اناج آ کہاں سے رہے ہیں؟ میں اس ڈر کے مارے کہ اناج ختم ہوجائے گا تھوڑا تھوڑا کرکے پرندوں کے برتن بھر رہا ہوتا ہوں مگر اناج ختم نہیں ہوتا۔ پھر اسی طرح میں پرندوں کو پانی دیتا ہوں اور وہ کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ میں تھک جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ یہ کتنا مشکل کام ہے۔ میں صبح کے وقت ان پرندوں کے پنجروں کو کھول دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ جاؤ اپنا رزق تلاش کرو اور شام کو واپس آجانا اور اپنے پنجروں کو صاف رکھنا۔ سارے پرندے مان جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ہر حکم کی فرماں برداری کریں گے۔ میں حیران رہ جاتا ہوں کہ یہ کس طرح کے پرندے ہیں جو مجھ سے بات بھی کر سکتے ہیں۔ چنانچہ تمام پرندے ویسا ہی کرتے ہیں جیسا میں نے انکو حکم دیا ہوتا ہے۔آہستہ آہستہ ان پرندوں کی افزائش ِ نسل ہوجاتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ میں ان پرندوں کو اس عمارت کے امیر لوگوں کو بیچ کر پیسے کماؤں گا۔ اور مجھے اس عمارت کے لوگوں کو متاثر کرنے کیلئے بھی کچھ کرنا چاہئے۔ میں انکو اتنا متا ثر کروں کہ وہ میری بات ماننے کیلئے تیار ہوجائیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اس عمارت میں بجلی کا شدید بحران ہے۔ لہٰذا میں ایک نیا جنریٹر ایجاد کرنا چاہتا ہوں جو بجلی پیدا کرے۔ چنانچہ اللہ کی طرف سے ایک نیا اور طاقتور جنریٹر میرے سامنے آجاتا ہے۔ میں حیران رہ جاتا ہوں کہ میں نے تو صرف سوچا ہی تھا اور اللہ نے اسے پورا بھی کردیا۔میں اس عمارت کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ میں نے بجلی بنانے کا ایک آسان اور جدید طریقہ ایجاد کیا ہے۔ اس عمارت کے لوگ اپنے بہترین انجینئر میرے پاس بھیجتے ہیں جو کہ اس جنریٹر کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ وہ مزید ایسا ایک اور جنریٹر بنانے کیلئے مجھ سے درخواست کرتے ہیں ۔ میں خود چاہتا ہوں کہ میں اس کے ذریعہ دولت کماؤں ۔میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں تمہیں یہ مفت میں دے دوں گا۔ چنانچہ میں پرندے اور جنریٹر بیچ کر دولت کماتا ہوں۔ میں اس عمارت کے بہت سے لوگوں کو انکے مالکوں کو پیسے دیکر آزاد کرواتا ہوں۔ میں لوگوں میں پیسے تقسیم کرتا ہوں اور انکو کھانے کو دیتا ہوں اور رہنے کو رہائش بھی۔ ابھی بھی اس عمارت میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنکے بارے میں میں سوچتا ہوں کہ کیا مجھے باقی ماندہ پیسے اور کھانا انکو دینا چاہئے یا نہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ اگر پیسے ختم ہوگئے تو مجھے کتنی شرمندگی ہوگی ۔اور میں دوسرے مستحق لوگوں کو نہ بچا سکوں گا اور نہ ان میں پیسے تقسیم کرسکوں گا۔اللہ تعالٰی آسمان سے فرماتے ہیں کہ جو لوگ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے اور ثابت قدم رہے انکو بھی نوازو۔ اللہ کے خزانے میں تقسیم کرنے سے کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس وہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

Komentar