لوگوں کے لئے پیغام | محمد قاسم خواب


۲ اپریل ۲۰۱۶
اِس خواب میں محمدﷺ مجھ سے فون کی طرح کے ایک آلے سے بات کرتے ہیں۔ محمدﷺ آواز سے عمر رسیدہ، بہت تھکے ہوئے اور پریشان لگتے ہیں۔ آپﷺ مجھے کہتے ہیں: ’’قاسم! میں نے بہت سے لوگوں کو آواز دی مگر کسی نے میری آواز نہیں سنی۔ میں بہت تھک چکا ہوں۔ اب مجھ میں اور ہمت نہیں ہے۔‘‘ تو میں کہتا ہوں: ’’آپ حکم کریں، میں حاضر ہوں۔‘‘ محمدﷺ مجھے کہتے ہیں: ’’قاسم! میں تم سےملنا چاہتا ہوں ایک بہت ہی ضروری کام ہے۔ کیا تم میرے پاس آ سکتے ہو؟‘‘ تو میں کہتا ہوں: ’’کیوں نہیں، مجھے اپنا پاسپورٹ بنوانا پڑے گا اور ویزا لگوانا پڑے گا۔ تو محمدﷺ کہتے ہیں: ’’ٹھیک ہے، مگر یہ سب جلدی سے کرو۔‘‘

میں ایک ٹریول ایجنٹ کے پاس جاتا ہوں۔ تو وہ مجھے بتاتا ہے کہ اِس کام میں ۳ سے ۴ مہینے لگ جائیں گے۔ یہ سن کے میں دل میں کہتا ہوں: ’’اِس طرح تو کافی دیر لگ جائے گی۔ محمدﷺ نے تو مجھے جلدی آنے کا کہا تھا۔‘‘ میں واپس آتا ہوں اور محمدﷺ سے کہتا ہوں کہ مجھے کم از کم ۳ سے ۴ مہینے لگ جائیں گے۔ یہ سُن کے محمدﷺ افسردہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’تم وہیں رکو میں تمھارے پاس آتا ہوں۔‘‘ میں کہتا ہوں: ’’آپ تھوڑا صبر کریں، میں آ جاؤں گا۔ آپ بہت تھکے ہوئے بھی ہیں اور بوڑھے بھی ہو چکے ہیں۔‘‘ تو آپ ﷺ کہتے ہیں: ’’نہیں بیٹا، کام بہت ضروری ہے۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔ میں نے اِس سے پہلے بھی اپنی امت کے لیے بہت تکلیفیں برداشت کی ہیں، اب بھی کر لوں گا۔‘‘ تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں: ’’ٹھیک ہے، آپ ہی آ جائیں۔ اللہﷻ آپکی مدد کرے اور آپ کیلیئے آسانی پیدا کرے۔‘‘ ساتھ ہی میں اللہﷻ سے دعا مانگتا ہوں: ’’یا اللہ، محمدﷺ کی مدد فرما اور اُنکا یہ سفر آسان کر دے۔‘‘ 

پِھرمیں جلدی سے ایئر پورٹ پہنچ جاتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہومحمدﷺ پہنچ جائیں اور میرا انتظار کرتے رہیں۔ کچھ ہی دیر بعد محمدﷺ ایئر پورٹ سے باہر آتے ہیں۔ میں انھیں دیکھ کربہت خوش ہو جاتا ہوں اور بھاگ کے اُنکے پاس پہنچ جاتا ہوں۔ آپﷺ بھی مجھے دیکھ کربہت خوش ہو جاتے ہیں۔ میں آپﷺ سے کہتا ہوں: ’’اللہ آپکو یہاں تک لے ہی آیا۔‘‘ تو محمدﷺ کہتے ہیں: ’’ہاں، بیشک اللہ بہت مہربان ہے۔‘‘ میں انھیں اپنی گاڑی میں بٹھا کے اپنے گھر لے آتا ہوں۔ میرا کرائے کا گھر ہوتا ہے اور اِسمیں روشنی بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

حضرت محمدﷺ جب گھر آتے ہیں تو مجھے اپنے پاس بیٹھا کر کہتے ہیں: ’’قاسم! میں ایک بہت ضروری کام سے آیا ہوں۔ میری کوئی نہیں سن رہا۔ دیکھو، اگر میرے اسلام کا یہی حال رہا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اسلام ختم ہی نہ ہو جائے۔ سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ کسی کو میری اور میرے اسلام کی فکر نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرا یہ کام کرو۔ تمہیں اللہﷻ نے جو خواب دکھائے ہیں وہ سب کو بیان کرو اورمیرا پیغام بھی لوگوں تک پہنچاؤ۔ یہ دیکھو، میں تمھارے لیے ایک آلہ لایا ہوں۔ اِسکے ذریعے سے تم اپنے خواب اور میرا پیغام سب تک پہنچاؤ۔ اور مسلمانوں سے کہو کہ محمدﷺ نے پیغام دیا ہے کہ قاسم جیسا بھی ہے، آخر وہ میرا ہی امتی ہے۔ اور میں اپنے کسی امتی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ اور اسلام پاکستان سے سر بلند ہوگا۔ لوگوں کو چاہیئے کہ اِس بات پرجھگڑا نہ کریں اور گروہوں میں نہ تقسیم ہو جایئں۔ قریب قیامت کے اسلام نے اللہﷻ کی رحمت سے کہیں نہ کہیں سے تو سربلند ہونا ہی ہے۔ اسلام کہیں سے بھی سربلند ہو، اچھی بات تو یہ ہے کہ سب مسلمان پِھر سے ایک ہو جائیں گے اوراپنا کھویا ہوا مقام پِھر سے حاصل کر لیں گے۔ اسلام پِھر سے دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ تو اِسمیں بُری بات کیا ہے؟‘‘

یہ سن کر میں محمدﷺ سے کہتا ہوں: ’’یہ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہوں اور کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو، میں آپکا یہ کام اللہﷻ کی مدد سے ضرور کروں گا۔ یہ سن کے محمدﷺ کی پُرنم آنکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اور مجھے زور سے اپنے سینے سے لگا کر کہتے ہیں: ’’مجھے اللہﷻ سے امید تھی کہ تم میری اِس بات سے انکار نہیں کرو گے۔ ‘‘ پھر محمدﷺ ایک لمبا سانس لے کر کہتے ہیں: ’’یا اللہ تیرا شکر ہے۔‘‘ پِھر آپﷺ فرماتے ہیں: ’’قاسم! اِس صندوق میں ایک نقشہ بھی ہے اورجب تم اللہﷻ کی مدد سے اِس سرزمین پہ حقیقی اسلام کا ایک شہر بنا لو گے، تب میں تمہیں اپنے پاس بلاؤں گا اور تمہیں بتاؤں گا کہ تم نے آگے کیا کرنا ہے۔‘‘ میں آپﷺ سے کہتا ہوں: ــ’’انشاءاللہ، آپ بے فکر رہیں اور اب آرام کریں۔ اب یہ کام میرا ہے اور اِسکو میں اللہﷻ کی مدد سے ضرور کروں گا۔ اِسکے بعد محمدﷺ میری کامیابی اور مدد کے لیے اللہﷻ سے دعائیں کرنے لگتے ہیں۔ پھر میں دل میں کہتا ہوں کہ میں نے محمدﷺ سے کہہ تو دیا ہے، مگراب اللہﷻ ہی میری مدد کرے۔ اللہﷻ کی مدد کے بغیر یہ کام میں کیسے کر سکتا ہوں؟

خیرمیں اللہﷻ کا نام لیتا ہوں اوراپنا کام شروع کرتا ہوں۔ محمدﷺ کے دیئے گئے صندوق کوکھولتا ہوں تو اُسمیں ایک کمپیوٹر کی طرح کا آلہ ہوتا ہے اور ایک نقشہ ہوتا ہے۔ میں اِس آلے سے اپنے خواب اور محمدﷺ کا پیغام لوگوں کو بھیجتا ہوں اور کچھ بڑے لوگوں کے پاس جاتا ہوں۔ انھیں بتاتا ہوں کہ محمدﷺ نے مجھے یہ پیغام دیا ہے۔ تو وہ سن کے ہنس پڑتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’قاسم! اپنا کام کرو اور ہمارا وقت ضائع مت کرو۔‘‘ یہ سن کرمیں مایوس سا ہو جاتا ہوں لیکن پِھر میں کہتا ہوں: ’’نہیں، میں نے تو محمدﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ میں آپکا یہ کام ضرور کروں گا۔‘‘ پِھر میں اُس نقشے کو کھول کر دیکھتا ہوں کہ یہ کس جگہ کا نقشہ ہے۔ تو اُسمیں ایک خُراسان کا نقشہ ہوتا ہے اور مشرق میں خُراسان سے پہلے کی جو سرزمین ہوتی ہے، اُس پہ محمدﷺ نے پاکستان سے ملتا جلتا ایک اور نقشہ بنایا ہوتا ہے، جس پرمحمدﷺ نے لکھا ہوتا ہے: ’’اگر تم قریب قیامت کے خُراسان سے پہلے کی سر زمین سے حقیقی اسلام کو پھیلتے ہوئے دیکھو تو اِسمیں شامل ہو جاؤ۔ خواہ تمہیں پہاڑوں سے ننگے پاؤں ہی کیوں نہ چل کے آنا پڑے۔‘‘ 

پِھرایک آدمی کا پیغام آتا ہے اور وہ مجھ سے تفصیل سے بات کرتا ہے۔ مگر اُسکو میری باتیں ٹھیک سے سمجھ نہیں آ رہی ہوتی۔ تو میں اُسکو کہتا ہوں: ’’تم میرے گھر آ جاؤ۔ میں تمہیں نقشہ دکھاؤں گا، اُسکو خود دیکھ لینا۔‘‘ پِھر وہ میرے گھرآتا ہے اور نقشہ دیکھ کر کہتا ہے: ’’ہاں میں نے بھی حدیث میں ایسا ہی کچھ پڑھا ہے کہ یہ خُراسان کی سرزمین نہیں ہے بلکہ خُراسان سے پہلے کی سرزمین ہے۔ پِھر وہ کہتا ہے: ’’اب میں سمجھ گیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ اگر یہ سر زمین ہے تو پِھر کالے جھنڈوں والی فوج پاکستان کی فوج ہے۔‘‘ تو میں کہتا ہوں: ’’پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اور دہشتگردوں کو چُن چُن کرمار رہی ہے۔‘‘ اِسکے جواب میں وہ آدمی کہتا ہے ’’ہمیں پاکستان کی فوج تک محمدﷺ کا پیغام پہنچانا ہو گا۔ ہمیں اسلام کے اِس آخری قلعے کو بچانا ہو گا۔‘‘ تو میں کہتا ہوں: ’’ہمیں جلدی کرنا ہو گی اور محمدﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا جو میرے پیغام پڑھے وہ اِسے آگے پہنچا دے۔‘‘
اِس طرح اور لوگ بھی شامل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پِھر ہم ایک گروپ کی شکل میں کام کرتے ہیں اور اِن خوابوں اور پیغامات کو بڑی تیزی سے پھیلاتے ہیں۔ اِسکے بعد یہ خواب اور محمدﷺ کا پیغام پوری دنیا میں اللہﷻ کی مدد سے پھیل جاتا ہے۔ اور پِھر وہی بڑے لوگ کہتے ہیں: ’’کاش! قاسم ہم نے تیری بات کا پہلے یقین کیا ہوتا۔ اُسکے بعد میں اپنے آپ سے کہتا ہوں: ’’اگر اللہﷻ مہربان نہ ہوتا اور اللہﷻ کی مدد نہ ہوتی تو یہ کام کبھی نہ ہوتا۔‘‘

Komentar