سونا، جواہرات اور مشین
9 فروری 2018
میں اِس خواب میں کسی جگہ سے گزر رہا ہوتا ہوں، راستے میں میری نظر زمین پہ پڑتی ہے، وہاں گھاس اُگی ہوتی ہے۔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اِس زمین میں سونا، جواہرات اور دوسری قیمتی چیزیں پڑی ہیں۔ میں زمین کو کھودتا ہوں تو مجھے ایک پتھرنما چیز ملتی ہے۔ میں اُس سے مٹی ہٹاتا ہوں تو وہ سونا ہوتا ہے۔میں بہت خوش ہوتا ہوں اور زمین کو مزید کھودنا شروع کر دیتا ہوں۔ مجھے اُس میں سے سونا، جواہرات اور دوسری قیمتی دھاتیں ملتی جاتی ہیں۔ میں بہت خوش ہوتا ہوں اور کہتا ہوں کہ جیسے میں نے خوابوں میں دیکھا ہے، ویسی ہی ایک مشین میں اللہﷻ کی مدد سے بناؤں گا اور ترقی کروں گا۔ میں اُن سب چیزوں کو ایک تھیلے میں ڈالتا ہوں اور اُسے اٹھا کر آگے چل پڑتا ہوں۔ اب مجھے ایک جگہ کی تلاش ہوتی ہے جہاں میں اِس سونے اور دوسری دھاتوں کو پگھلا کر مشین بنا سکوں۔ میں چلتا جاتا ہوں، پِھر مجھے اپنے دائیں جانب ایک عمارت نظر آتی ہے۔ میں کہتا ہوں ہو سکتا ہے مجھے اِس عمارت سے کوئی لوہے کی بھٹی مل جائے جس سے میں مشین بنا سکوں۔ جب میں اِس عمارت کے اندر داخل ہوتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے یہاں پر شیطانی قوتوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ میں یہ سوچ کر ڈر جاتا ہوں کہ اگر کسی نے مجھے دیکھ لیا تو وہ مجھے پکڑ لیں گے۔ بہرحال مجھے اندر جانا ہوتا ہے۔ میرے پاس اِس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ میں کہتا ہوں جب حضرت محمدﷺ نے مکہ سے ہجرت کی تھی تو وہاں کفار نے پہرا دیا ہوا تھا تاکہ آپﷺ مکہ سے باہر نہ جا سکیں، تو انھوں نے اللہﷻ کا کلام پڑھا تھا جس کی وجہ سے کفار اُن کو نہیں دیکھ سکے تھے۔ مجھے بھی وہی طریقہ اپنانا چاہیے۔ میں یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مجھے یاد نہیں آتا کہ حضرت محمدﷺ نے اللہﷻ کا کونسا کلام پڑھا تھا۔ عمارت میں بہت کم روشنی ہوتی ہے جس کی وجہ سے حد نگاہ صرف چند فٹ ہوتی ہے۔ میں اللہﷻ کا نام لیتا ہوں اور سورۃ اخلاص پڑھتے ہوئے آگے چلنا شروع کر دیتا ہوں۔ شیطانی قوتیں مجھے نہیں دیکھ پاتیں۔عمارت کے اندر میں ایک سیدھے راستے پہ چل رہا ہوتا ہوں جو کہ بہت لمبا ہوتا ہے اور میں نے بہت سا وزن بھی اٹھایا ہوتا ہے۔ مجھے تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے مگر میں ہمت نہیں ہارتا اور مسلسل چلتا رہتا ہوں۔ وہ ایک بڑی عمارت ہوتی ہے جو اندر سے بہت گہری ہوتی ہے۔ مجھے مسلسل یہی خوف ہوتا ہے کہ شیطانی طاقتیں یہاں موجود ہیں۔
آگےایک مقام پر پہنچ کر مجھےمحسوس ہوتا ہے کہ اب میں شیطانی طاقتوں کے حصار سے باہر نکل آیا ہوں۔ میں کافی تھک جاتا ہوں، پِھر مجھے اپنے بائیں جانب ایک جگہ نظر آتی ہے۔ میں اُس طرف جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں تو وہاں ایک لوہے کی بھٹی، کچھ سانچے اور ایک لوہے کی ٹیبل ہوتی ہے۔ گویا ضرورت کی ساری چیزیں وہاں پڑی ہوتی ہیں۔ میں کہتا ہوں، ہاں! مجھے اِسی کی تلاش تھی۔ میں اپنا سامان وہاں رکھتا ہوں اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد لوہے کی بھٹی کو دیکھنے لگتا ہوں۔ اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے کافی مشکل پیش آتی ہے۔ جب میں بھٹی کو دیکھتا ہوں تو اُس میں آگ نہیں جل رہی ہوتی۔ دیکھنے میں ایسے لگتا ہے کہ یہ بھٹی کئی سالوں سے بند پڑی ہے۔ بھٹی میں کوئلے بھی پڑے ہوتے ہیں۔ اچانک مجھے خیال آتا ہے کہ کوئلوں کو آگ لگانے کے لیے یہاں کوئی چیز نہیں۔ میں کہتا ہوں اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو میں کوئی ماچس ہی ساتھ لے آتا۔ میں کافی تھک جاتا ہوں اور کہتا ہوں یہ تو بہت محنت طلب کام ہے، میں سمجھا تھا کہ آسان ہو گا ۔
میں اندھیرے میں آگ لگانے کے لیے کوئی چیز ڈھونڈنے لگتا ہوں۔ پِھر مجھے تھوڑا سا تیل اور پتھر ملتے ہیں۔ میں تیل کوئلوں پہ ڈال کر پتھروں کو رگڑنا شروع کر دیتا ہوں تاکہ کسی طرح آگ لگ جائے، مگر آگ نہیں لگتی۔ میرے ہاتھ پہلے ہی وزن اٹھانے کی وجہ سے تھکے ہوتے ہیں۔ اِسی دوران میرے بائیں ہاتھ سے پتھر چھوٹ جاتا ہے۔ میں غصے میں آ کر کھڑا ہو جاتا ہوں اور کہتا ہوں یہ کام مجھ سے نہیں ہونے والا۔ میں بہت تھک چکا ہوں اور ابھی کافی کام پڑا ہے۔ ابھی تو مجھ سے آگ نہیں لگ رہی اور اگر آگ لگ بھی جائے تو دھاتوں کو پگھلا کر مشین بنانا مشکل کام ہے۔ میں تنگ آ کر دوسرا پتھر بھی کوئلوں پر پھینک دیتا ہوں تو وہ پہلے پتھر پہ جا کر لگتا ہے، جس سے ایک بڑی چنگاری پیدا ہوتی ہے اور کوئلوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ مگر میں پِھر بھی یہی کہتا ہوں کہ مجھے یہ کام اب نہیں کرنا۔ جتنا میں کر سکتا تھا میں نے کیا۔ پِھر میں واپس جانے والے راستے کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھنے لگتا ہوں اور کہتا ہوں، کاش! میں اِس کام کو شروع ہی نہ کرتا۔ اب اتنےلمبے راستے سے دوبارہ واپس کیسے جاؤں جو خطرناک بھی ہے۔ پِھر میں دوسری طرف دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں مجھے آگے جا کر دیکھنا چاہیے، شاید یہاں سے کوئی باہر جانے کا راستہ ملے ۔
میں 2، 3 قدم ہی چلتا ہوں کہ مجھے کچھ لوگوں کے چلنے کی آواز آتی ہے۔ میں اپنے دائیں جانب دیکھتا ہوں تو کچھ لوگ نظر آتے ہیں۔ میں اُن کو دیکھ کر رک جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں؟ میں غور سے دیکھتا ہوں تو اُنھوں نے کالے سے رنگ کے کپڑے پہنے ہوتے ہیں اور اُن کے سروں پہ بھی کپڑا ہوتا ہے۔وہ اُسی لوہے کی بھٹی کے پاس آ کر رک جاتے ہیں اور تھیلے سے سونا اور جواہرات وغیرہ نکال کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور بھٹی کی آگ تیز کر کے سونا پگھلانا شروع کر دیتے ہیں۔ میں حیران ہو کر کہتا ہوں کہ یہ کیا کر رہے ہیں؟ یہ تو میری چیزیں تھی۔ پِھر میں کہتا ہوں مجھے اِس سے کیا۔ میں نے کون سا یہ کام اب کرنا ہے جو اپنی چیزوں کی فکر کروں؟ اندھیرا ہونے کی وجہ سے مجھے ٹھیک سے نظر نہیں آتا۔ وہ لوگ پگھلے ہوئے سونے سے کوئی چیز بناتے ہیں۔ ایک آدمی ٹیبل پر سونے سے بنی ہوئی 2 چیزیں رکھ کر دوبارہ کام میں لگ جاتا ہے۔ وہ سونا اندھیرے میں بہت چمک رہا ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں، اِن لوگوں نے یہ کیا بنایا ہے؟ میں قریب جا کر دیکھتا ہوں تو وہ سونے کی دو گراریاں (gears) ہوتی ہیں اور اُن پہ جوہرات لگے ہوتے ہیں۔ میں اُن کو دیکھ کربہت حیران اور خوش ہوتا ہوں اور کہتا ہوں انھوں نے تو بالکل ویسی ہی گراریاں بنائی ہیں جیسے میں چاہتا تھا۔ میں اُن کوغور سے دیکھتا ہوں وہ بہت اچھی بنی ہوتی ہیں، مگر کہیں تھوڑی سی کمی ہوتی ہے۔ پہلے میں سوچتا ہوں کہ اِن سے کہوں کہ یہ جو تھوڑی سی کمی رہ گئی ہے، اِس کو بھی ٹھیک کریں۔مگر پِھر میں رک جاتا ہوں اور کہتا ہوں اب اِس اندھیرے میں جو بن گیا ہے، یہی کافی ہے۔ مجھے اِن کو پریشان نہیں کرنا چاہے ، اللہﷻ نے میرا کام آسان کر دیا ہے۔ جب یہ ساری چیزیں بنا لیں گے تو پِھر میں مشین بناؤں گا۔
میں ابھی اِن گراریوں کو دیکھ ہی رہا ہوتا ہوں کہ اچانک مجھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو حضرت محمدﷻ میری طرف آ رہے ہوتے ہیں۔میں اُن کو دیکھ خوش ہو جاتا ہوں۔ آپﷺ کی چال سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت کمزور ہو چکے ہیں جس کا مجھے افسوس ہوتا ہے۔ میں آگے بڑھ کر اُن کو سلام کرتا ہوں۔ وہ جواب دیتے ہیں، پِھر میں اُن کو وہ گراریاں دکھاتا ہوں اور کہتا ہوں، یہ دیکھیں! اِن لوگوں نے کتنی محنت سے اور اچھی گراریاں بنائی ہیں۔ یہ کتنی چمک رہی ہیں اور اِن پہ لگے جواہرات بھی کیسے چمک رہے ہیں۔ حضرت محمدﷺ وہ گراریاں دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ تو بہت محنت سے اور بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔ اللہﷻ اِن کو بہت زیادہ اجر دے گا۔ پِھر میں کہتا ہوں آپ اِن کو پکڑ کر دیکھیں اور اِن کی کوالٹی چیک کریں۔ تو آپﷺ کہتے ہیں، میں کمزور ہو چکا ہوں اور میری دائیں بازو کے پٹھےبھی بہت کمزور ہو چکے ہیں، یہ وزنی ہوں گی، میں اِن کو نہیں اٹھا سکتا۔ میں کہتا ہوں، آپ فکر نہ کریں، جب ہم جب یہ پرزے بنا لیں گے تو پِھر میں مشین بناؤں گا اور عنقریب اِس قابل ہو جاؤں گا کہ آپ کا بازو ٹھیک کر سکوں گا۔ آپ کے بازو میں پِھر سے طاقت آ جائے گی اور آپ کے بدن کی کمزوری بھی دور ہو جائے گی، آپ پِھر سے پہلے جیسے ہو جائیں گے اور اُسی طرح کام کریں گے جیسے پہلے کیا کرتے تھے۔ میری باتیں سن کر حضرت محمدﷺ بہت خوش ہوتے ہیں اور بڑی پُر جوش آواز میں کہتے ہیں، قاسم! اللہﷻ تمہیں اور زیادہ علم سکھائے اور خواب وہیں ختم ہو جاتا ہے ۔
Komentar